کراچی کی تاریخ: بندوق، سیاست اور شناخت
اصل کہانی، ایک جملے میں
- سیاسی جماعتوں، خاص طور پر ایم کیو ایم نے، کراچی میں مایوس نوجوانوں کو اپنی شناخت اور مظلومیت کی کہانی سنا کر شدید تشدد کی طرف دھکیل دیا، جس نے 80 اور 90 کی دہائی میں شہر کو تباہ کر دیا۔
سب سے اہم باتیں
- شناخت کی سیاست: ایم کیو ایم نے مہاجروں کو یہ احساس دلایا کہ سندھی، پنجابی اور پشتون سب ان کے دشمن ہیں، تاکہ وہ ایک مضبوط سیاسی گروپ بن جائیں اور انہیں ووٹ دیں۔
- تشدد کا دور: کراچی میں لسانی فسادات کی وجہ سے ہزاروں لوگ مارے گئے، اور شہر میں اتنا خوف تھا کہ لوگ گھروں سے نکلنے سے ڈرتے تھے۔
- نوجوان اور بندوق: بہت سے غریب اور بے روزگار نوجوانوں نے طاقت، عزت اور اپنی پہچان بنانے کے لیے ہتھیار اٹھائے اور سیاسی پارٹیوں کے لیے ٹارگٹ کلر بن گئے۔
- معاشی تباہی: مسلسل ہڑتالوں، لڑائی جھگڑوں اور تشدد کی وجہ سے کراچی کی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان ہوا اور شہر کا امن مکمل طور پر تباہ ہو گیا۔
دلچسپ حقائق اور اعداد و شمار:
- حقیقت: ایک رات ہونے والے فسادات میں 900 سے زیادہ پشتون مارے گئے، جس کے بدلے میں 280 مہاجروں کو قتل کیا گیا تھا۔
- حقیقت: ایک اندازے کے مطابق، ایم کیو ایم بھتہ خوری (زبردستی پیسے وصول کرنے) سے سالانہ 765 ملین روپے اکٹھا کرتی تھی۔
- حقیقت: 1995 میں صرف چھ مہینوں کے دوران، ہڑتالوں اور بندشوں کی وجہ سے کراچی کو 65 ارب روپے کا نقصان ہوا۔
اہم اقوال، آسان زبان میں
- قول: > "ایم کیو ایم ایک ایسی تحریک تھی جو مایوس متوسط طبقے (frustrated petty bourgeoisie) کے لوگوں پر مشتمل تھی، جو ایک ایسی ریاست میں نوکریوں کا زیادہ حصہ چاہتے تھے جس پر فوج اور بیوروکریسی کی اجارہ داری تھی۔"
- اس کا مطلب کیا ہے: اسے ایسے سمجھیں کہ ایک گھر ہے جس پر مالک اور اس کا بڑا بیٹا قابض ہیں اور گھر کے سارے وسائل وہی استعمال کرتے ہیں۔ گھر کے باقی چھوٹے بھائی اس نظام کو بدلنے کے بجائے آپس میں لڑ رہے ہیں کہ ہمیں بھی اس مال میں سے زیادہ حصہ ملے۔ یہ قول کہتا ہے کہ ایم کیو ایم ان چھوٹے بھائیوں کی طرح تھی، جو پورے ناانصافی والے نظام کو چیلنج کرنے کے بجائے صرف اپنے گروہ (مہاجروں) کے لیے زیادہ نوکریاں اور اختیارات مانگ رہی تھی۔
- یہ اہم کیوں ہے: یہ بات اس لیے اہم ہے کیونکہ اس سے پتا چلتا ہے کہ یہ تحریک سب کے حقوق کے لیے نہیں تھی، بلکہ ایک مخصوص گروہ کو اسی پرانے نظام کے اندر زیادہ فائدہ پہنچانے کے لیے تھی۔
مصنف کے دلائل ('کیوں؟')
- سب سے پہلے، مصنف دلیل دیتا ہے کہ سیاسی پارٹیوں نے مہاجر برادری میں "محاصرہ ذہنیت" (siege mentality) پیدا کی، یعنی انہیں یہ یقین دلایا کہ وہ چاروں طرف سے دشمنوں میں گھرے ہوئے ہیں۔
- اگلا، وہ ثبوت پیش کرتے ہیں کہ مظلومیت کا یہ احساس اکثر خود بنائی گئی کہانیوں ("myths") پر مبنی تھا، جیسے یہ خیال کہ مہاجر سب سے زیادہ مظلوم ہیں، جبکہ تاریخی طور پر انہیں بیوروکریسی اور کاروبار میں کافی مراعات حاصل تھیں۔
- پھر، وہ دکھاتے ہیں کہ اس شناختی سیاست کو استعمال کر کے مایوس نوجوانوں کو بھرتی کیا گیا، جو تشدد کو طاقت، عزت اور پیسہ کمانے کا ایک ذریعہ سمجھتے تھے۔
- آخر میں، وہ بتاتے ہیں کہ ریاست کے اپنے تشدد اور انصاف فراہم کرنے میں ناکامی نے ایک ایسا چکر پیدا کیا جہاں سیاسی گروہوں نے خود کو مزید وحشیانہ تشدد کرنے میں حق بجانب محسوس کیا۔
سوچنے پر مجبور کرنے والے سوالات
- سوال: کیا ایم کیو ایم واقعی اسٹیبلشمنٹ (فوجی حکومت) نے بنائی تھی؟
- جواب: پوڈکاسٹ کے مطابق، اس کہانی کے دو رخ ہیں۔ کچھ لوگ، جیسے صحافی اور سابق فوجی جرنیل، دعویٰ کرتے ہیں کہ جنرل ضیاء الحق نے ایم کیو ایم کو دوسری جماعتوں کا ووٹ توڑنے کے لیے بنوایا تھا۔ دوسری طرف، ایم کیو ایم اس بات سے مکمل انکار کرتی ہے۔ پوڈکاسٹ کا میزبان کہتا ہے کہ آپ کے سامنے دونوں کہانیاں ہیں، آپ جس پر چاہیں یقین کر سکتے ہیں۔
- سوال: کیا کوٹہ سسٹم واقعی مہاجروں کے ساتھ ناانصافی تھی؟
- جواب: کتاب یہ دلیل دیتی ہے کہ ایسا نہیں تھا۔ کوٹہ سسٹم سے پہلے، سرکاری نوکریوں میں مہاجروں کی تعداد ان کی آبادی کے تناسب سے تین گنا زیادہ تھی۔ کوٹہ سسٹم نے صرف اس غیر متوازن نمائندگی کو ٹھیک کیا تاکہ ہر علاقے کے لوگوں کو ان کی آبادی کے لحاظ سے حصہ ملے۔ اس لیے مہاجروں کو یہ ناانصافی محسوس ہوئی کیونکہ وہ اپنی ایک غیر معمولی حیثیت کھو رہے تھے، نہ کہ اس لیے کہ ان کا حق مارا جا رہا تھا۔
یہ کیوں اہم ہے اور آگے کیا؟
- آپ کو کیوں پرواہ کرنی چاہیے: یہ تاریخ بہت اہم ہے کیونکہ یہ ہمیں سکھاتی ہے کہ سیاستدان کس طرح آسانی سے شناخت (جیسے مہاجر، سندھی، یا پنجابی ہونا) کو استعمال کر کے لوگوں کو تقسیم کر سکتے ہیں اور انہیں تشدد پر اکسا سکتے ہیں۔ اسے سمجھنے سے ہم آج کے دور میں بھی ایسی چالوں کو پہچان سکتے ہیں اور ماضی کی غلطیوں کو دہرانے سے بچ سکتے ہیں جنہوں نے ہمارے شہر کو جلا کر رکھ دیا تھا۔
- مزید جانیں: اگر آپ اس دور کے کراچی کا ماحول محسوس کرنا چاہتے ہیں، تو پاکستانی فلم "لال کبوتر" دیکھیں۔ یہ ایک کرائم تھرلر ہے جو اس دور کے بعد کے کراچی کے تناؤ اور ماحول کو بہت اچھی طرح سے پیش کرتی ہے، بھلے ہی اس کی کہانی جدید دور کی ہو۔