کراچی پاکستان کو پالتا ہے: سچ یا جھوٹ؟
اصل بات مختصر
- یہ مشہور خیال کہ کراچی پورے پاکستان کو پالتا ہے، ایک جھوٹ ہے؛ حقیقت یہ ہے کہ دوسرے صوبوں، خاص طور پر بلوچستان کے وسائل، کراچی کو ترقی دینے کے لیے استعمال ہوئے، اور اب کراچی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ سب کو پال رہا ہے۔
سب سے اہم باتیں
- کراچی کی ترقی: کراچی اور پنجاب، بلوچستان سے ملنے والی سستی گیس استعمال کر کے صنعتی شہر بنے، جبکہ بلوچستان خود غریب رہ گیا۔
- ٹیکس کا دھوکہ: کراچی میں زیادہ ٹیکس اس لیے جمع ہوتا ہے کیونکہ بڑی کمپنیوں کے ہیڈ آفس اور بندرگاہ وہاں ہیں، لیکن یہ پیسہ پورے پاکستان کے لوگوں کی خریداری سے آتا ہے۔
- اصل مسئلہ امیر طبقہ ہے: اصل لڑائی شہروں کی نہیں بلکہ اس بات کی ہے کہ پاکستان کا امیر طبقہ (elite) اپنا پورا ٹیکس نہیں دیتا اور حکومت سے بڑے فائدے لیتا ہے۔
- دلچسپ حقائق اور اہم نمبرز:
- حقیقت: بلوچستان نے پاکستان کو گیس کی مد میں 7 ٹریلین روپے کی سبسڈی دی، یعنی اپنی گیس بہت سستی دے کر پاکستان کے دوسرے علاقوں کو ترقی کرنے میں مدد کی۔
- حقیقت: پاکستان میں موجود معدنیات کی مالیت تقریباً 8 ٹریلین ڈالر ہے، جن میں سے زیادہ تر بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں ہیں۔
- حقیقت: پاکستان اپنی کل کمائی کا صرف 10% ٹیکس میں جمع کرتا ہے، جبکہ ایشیا کے دیگر ممالک اوسطاً 19.3% اور ترقی یافتہ ممالک 34% جمع کرتے ہیں۔
اہم باتیں، آسان الفاظ میں
- اقتباس: "> تو پھر کس نے پالا ہے کس کو؟ ہم جو کہتے ہیں گرین ریولیوشن ایوب خان کا وہ سوئی کی گیس پہ چلا ہے۔ جو پاکستان کی انڈسٹریلائزیشن ہوئی ہے، وہ سوئی کی گیس پہ ہوئی ہے۔"
- اس کا کیا مطلب ہے: اصل میں کس نے کس کی مدد کی؟ پاکستان میں جو زراعت میں ترقی ہوئی اور جو فیکٹریاں لگیں، وہ سب بلوچستان کے علاقے سوئی سے نکلنے والی سستی گیس کی وجہ سے ممکن ہوا۔
- یہ کیوں اہم ہے: یہ بات پوری بحث کو الٹ دیتی ہے۔ یہ بتاتی ہے کہ کراچی نے بلوچستان کو نہیں پالا، بلکہ بلوچستان کے وسائل نے پاکستان کے شہری علاقوں بشمول کراچی کو ترقی دینے میں مدد کی۔
مصنف کے دلائل ('کیوں؟')
- پہلی بات، مصنف کہتا ہے کہ جہاں فیکٹریاں اور ہیڈ آفس ہوں گے، ٹیکس وہیں جمع ہو گا، اس کا یہ مطلب نہیں کہ سارا پیسہ وہی شہر کما رہا ہے۔ پورے پاکستان کے وسائل کراچی میں آکر بکتے ہیں یا ان پر ٹیکس لگتا ہے، جس سے کراچی کے نمبرز بڑے نظر آتے ہیں۔
- دوسری بات، وہ ثبوت دیتا ہے کہ کراچی اور پنجاب کی ترقی بلوچستان سے ملنے والی سستی گیس جیسے وسائل کی قربانی پر ہوئی، جبکہ بلوچستان خود پیچھے رہ گیا۔
- آخر میں، وہ بتاتا ہے کہ اصل مسئلہ غیر منصفانہ ٹیکس کا نظام ہے جہاں تنخواہ دار لوگ تو ٹیکس دیتے ہیں، لیکن بہت امیر لوگ (جیسے زمیندار اور پراپرٹی ٹائیکون) اپنا پورا ٹیکس نہیں دیتے اور حکومت سے الٹا فائدے لیتے ہیں۔
سوچنے کے لیے کچھ سوالات
- سوال: اگر کراچی پاکستان کو نہیں پالتا، تو پھر وہاں اتنا زیادہ ٹیکس کیوں جمع ہوتا ہے؟
- جواب: متن کے مطابق، ایسا اس لیے ہے کیونکہ ملک کی سب سے بڑی بندرگاہ اور بڑی بڑی کمپنیوں کے ہیڈ آفس کراچی میں ہیں۔ تو جب کوئی چیز پورے پاکستان میں بکتی ہے یا کسی دوسرے شہر کے لیے سامان درآمد ہوتا ہے، تو اس کا ٹیکس اکثر کراچی میں جمع ہوتا ہے، بھلے ہی پیسہ کہیں اور سے آیا ہو۔
- سوال: متن میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان کی گیس پاکستان کو ترقی دینے کے لیے استعمال ہوئی۔ کیا بدلے میں بلوچستان کو کچھ ملا؟
- جواب: متن کے مطابق، بلوچستان کو اس کا جائز حق نہیں ملا۔ اسے اپنی گیس بہت سستی قیمت پر پورے ملک کو دینی پڑی، جس سے پاکستان کو 7 ٹریلین روپے کا فائدہ ہوا۔ اس سے پاکستان کے دوسرے صنعتی علاقے تو ترقی کر گئے، لیکن بلوچستان خود سب سے پسماندہ صوبوں میں سے ایک رہا۔ مثال کے طور پر، سوئی گیس 1950 کی دہائی میں کراچی پہنچ گئی تھی لیکن بلوچستان کے اپنے دارالحکومت کوئٹہ تک 1980 کی دہائی میں پہنچی۔
یہ کیوں ضروری ہے اور آگے کیا؟
- یہ آپ کے لیے کیوں اہم ہے: یہ سمجھنا ضروری ہے تاکہ آپ پاکستان کے اصل معاشی مسائل کو جان سکیں۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ کون سا شہر یا صوبہ "بہتر" ہے، اس پر لڑنا وقت کا ضیاع ہے۔ اصل لڑائی ایک منصفانہ نظام کے لیے ہونی چاہیے جہاں ہر کوئی، خاص طور پر امیر اور طاقتور لوگ، اپنا ٹیکس دیں اور ملک کے وسائل صرف چند بڑے شہروں پر نہیں بلکہ تمام علاقوں کی ترقی پر خرچ ہوں۔
- مزید جانیں: یہ سمجھنے کے لیے کہ شہر اور معیشت کیسے ترقی کرتے ہیں، آپ یوٹیوب پر "Urban Economics" یا "How taxes work" کے بارے میں آسان ویڈیوز دیکھ سکتے ہیں۔ آپ یہ بھی سرچ کر سکتے ہیں کہ "بڑے شہر امیر کیسے بنتے ہیں؟"